(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کریں
صرف جواب ( کے ۔ کیو ۔ لا ہو ر )
جواب :۔ محترمہ کے کیو صاحبہ اگر انھیں واقعی آپ سے شادی کر نی ہو تی تو یو ں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے ۔ مرد عام طور پر جب اخلا قی دباﺅ محسو س کرتے ہیں تو یو ں ہی گو ل مو ل الفا ظ بیان کرتے ہیں ۔ ورنہ ایسے بھی مر د ہیں جو کھل کر شادی کا وعدہ کرتے ہیں ۔ مگر وقت پر مکر جا تے ہیں آپ اس گورکھ دھندے سے نکل جائیں ۔ لیلیٰ مجنو ں کی یہ داستانیں عہد جدید میں دما غی خلل سمجھی جا تی ہیں ۔ صحت مند انسان وہی ہے جو اپنے جذبات پر قابو پانے کی صلا حیت رکھتا ہو۔ زندگی پر سکون گزارنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ چاہیں گی تو دن رات بسورتی رہیں گی اور چاہیں گی تو مسکراتی رہیں گی ۔ یہ مسکراہٹیں ، یہ افسردگیا ں انسان خود ہی تو پیدا کرتا ہے ۔ فر ق صر ف یہ ہے کہ کوئی اپنے ذہن پر قابو پالیتا ہے ۔ اور کوئی دردو کرب کی لذت حاصل کرنے کے لیے المیو ں کا متلا شی رہتا ہے۔ اذیت پسندی کی لذت بڑی بری شے ہے خاتون!
عورت سے شرم ناک سوال پوچھے جاتے ہیں
صرف جواب (محمو داحمد ۔۔۔فےصل آباد )
محترم محمو د احمدصاحب ! سوال یہ ہے کہ اتنے عرصے بعد مقدمہ دائر کرنے سے آخر حاصل کیا ہو گا؟ سوائے اس کے کہ آپ لو گ انتقامی کا روائی سے کچھ تسکین حاصل کر لیں ۔ عدالت زیادہ سے زیادہ یہی کر ے گی کہ طلا ق دلوا دے گی یا پہلی بیوی کی طلا ق ثابت ہوجانے پر انھیں علیحدگی پر مجبور کر دے ۔ اس کے سوا اور کیا فائدہ ہو گا۔ اور مقدمہ بازی میں برسو ں لگ جا ئیں گے ۔ میرے خیال میں تو عدالتی کاروائی سے بہتر ہے کہ کچھ بزرگ حضرات کو درمیان ڈال کر فےصلہ کر لیں ۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ایسے مقدمات میں عورتوں سے بہت ہی شرمنا ک سوالات کیے جاتے ہیں ( دوسرے فریق کے وکیل اپنے موکل کو بچانے کے لیے یہی کر تے ہیں) ایسی صورت میںصر ف رسوائی ہوا کرتی ہے ۔ عام طور پر شوہر اپنی بیوی پر شرمنا ک الزامات عائد کر دیتے ہیں خواہ یہ ثابت ہو ں یا نہ ہو ں مگر دوران مقدمہ تو رسوائی ہو جاتی ہے نا۔
اللہ کی رضا میں بڑے راز پوشیدہ ہوتے ہیں
محترمہ طیبہ صاحبہ ! میں آپ کا خط شائع نہیں کر رہا مجھے یہ خط پڑ ھ کر دکھ ہو ا۔ اس لیے نہیں کہ آپ کی داستان دکھ بھری ہے بلکہ اس لیے کہ میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی خاص مدد نہ کرسکو ں گا۔ سوائے چند دلا سے کی باتیں کہہ دو ں۔ مگر دلاسہ دینا تو میرا فرض ہے وہ پورا کرناہی ہے ۔ہمیں یہ دنیا مجموعہ اضداد نظر آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ہر فرد کو دوسرے فرد کے لیے مثال بنا یا ہے ۔ ہر شخص کچھ دکھ سہتا ہے۔ مگر اس کے دکھ دوسروںکے لیے عبرت کا باعث بنتے ہیں ۔ دوسروں کی خوشیوں میں گھلے ملے دکھ دیکھ کر دیکھنے والا اگر چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔ آپ کی اس زندگی سے نہ جانے کتنے لوگوں نے جانے اور انجانے طور پر عبرت حاصل ہو گی ۔ اس میں وہ لو گ بھی شامل ہیں ۔ جو آپ سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں ۔ اور وہ بھی جن کا آپ سے دور کا واسطہ نہ ہو گا ۔اللہ کی رضا میں بڑے راز پو شیدہ ہو تے ہیں تو پھر آپ خود کو رضائے الہٰی کے حوالے کیو ں نہ کر دیں ۔ کیو ں نہ اس کی خاطر خود کو قربان کر ڈالیں اور مزا تو جب ہے صرف لب ہی نہیں بلکہ اس قربانی پر دل بھی مسرور ہو ا اور جب آپ اس کے لیے تیا رہوں گی تو ہر مشکل بات پر دکھ مسرت میں بدل جائے گا۔ کیو نکہ وہ دکھ رضائے الہٰی کی خاطر ہو گا ۔
تمہاری تنہائی تمہاری فکر کو جلا دے گی
سوال : میںجماعت دہم کا طالب علم ہو ں ۔ والدین کے چا ر بیٹو ں میں سے تیسرا ہو ں مجھے کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ طبیعت گری گری رہتی ہے۔ کسی محفل میںشریک نہیں ہوتا۔ گھر میں بہن بھا ئیو ں میںتلخ کلا می ہو جائے تو اسے اپنی غلطی پر محمول کر کے گھنٹو ں تنہا ئی میں روتا رہتا ہوں ۔ معمولی سی ڈانٹ پر دو دو وقت کھا نا نہیں کھا تا جس سے صحت گر رہی ہے ۔ کھیلو ں میں حصہ لینے کے بجائے مٹی سے کھلونے بنانے میں لگا رہتا ہو ں ۔ تنہائی پسند ہو ں اور روتا رہتا ہو ں۔ خوش گل نہ ہونے کی وجہ سے اکثر غیر مطمئن رہتا ہوں ۔ خدا کے لیے مجھے کو ئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میںکھیلو ں میں دلچسپی لو ں ، دل ہی دل میںکڑھتانہ رہوں ۔ میرے والدین ناراض نہ ہو ں ۔ میری تنہا ئی دور ہو ، میرے دل میں زندہ رہنے کی امنگ پیدا ہو اور میرے بھائی کی نفرت محبت میںبدل جائے ۔ ( قاضی افتخار احمد ۔۔۔لیہ )
جواب: عزیزم قاضی افتخار احمد ! تمہارے خط میں تمہارے دکھے ہوئے دل کی پکار ہے ۔ تم نے درخواست کی ہے کہ میںتمہیں کھیلو ں کی طر ف راغب ہونے کے طریقے بتاﺅ ں ۔ عزیزم! کھیلو ں کی طرف رغبت کا انحصار تو انتہائی بچپن کے ما حول پر ہوتا ہے ۔ انتہائی بچپن سے مرا د تین سے بارہ برس کی عمر ہے ۔ اس عمرمیں اگر بچے کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ شرمانا چھوڑ کر محفلو ں میں بیٹھا کرے تو اس کے اندر ایسی صفتیں پید اہو جاتی ہیں ۔ جنہیں نفسیا تی اصلا ح میں Extrovert کہا جا تا ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ کا میا ب زندگی بسر کرتے ہیں ۔ تم اگر بڑے لو گو ں کی زندگی کا مطالعہ کر و ( بڑو ں سے مراد مفکرین ہیں) تو وہ تمام کے تمام تنہائی پسند تھے ۔ تمہارے اندر ایک مفکر کی خوبیاںموجو د ہیں۔ تم اسکی طرف دھیا ن دو۔ مستقبل میںتم ایک سائنسدان اچھے انجینئر یا ڈاکٹر بن سکتے ہو۔بشر طیکہ تم ” مقبول“ ہونے کی خاطر جبراً کھیلو ں کی طرف اپنے ذہن کو موڑنے کی کو شش نہ کرو ۔کھلنڈرے لڑکے بھی اچھے ہو تے ہیں مگر وہ مفکر نہیں بن پاتے ۔ تمہاری تنہائی تمہاری فکر کو جلا دے گی ۔ تم اپنے بڑے بھائی کا پیار حاصل کرنے کی کو شش نہ کر وبلکہ یہ سوچو کہ مستقبل میں بذریعہ تعلیم ایک عظیم شخصیت بن کر تمام دنیا کا پیار حاصل کر سکتے ہو ۔ اس لیے کڑھنا چھوڑ دو ۔ اپنے محبوب مو ضو ع کی طر ف تندہی سے دھیان دو ۔ اکتاہٹ کی بجائے رغبت پیدا کر و۔ وقت آئے گا کہ وہ لو گ تمہاری قدر کرینگے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں